نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے مدارس پر پابندی کے فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے متعدد ریاستوں میں مدارس پر پابندی لگاتے ہوئے لاکھوں طلبہ کو روایتی اسکولوں میں داخلے کی ہدایت کی تھی۔
عدالت نے مدرسوں سے متعلق 2004 کا قانون منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دینی مدارس سے متعلق قانون سے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
تاہم اب تقریباً 17 لاکھ طالب علموں اور مدارس کے 10 ہزار سے زائد اساتذہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا سے بڑی خوشخبری ملی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بینچ نے معاملے پر مرکزی اور اتر پردیش حکومتوں کو نوٹس جاری کیے۔
سپریم کورٹ نے ریماکس دیے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا یہ کہنا ہے کہ مدرسہ بورڈ آئین کے جمہوری اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے یہ درست نہیں۔
مدارس پر پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب بھارت میں اگلے ماہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تیسری بار اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے وکیل انشومن سنگھ راٹھور کی درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔
جج سبھاش ودیارتھی اور وویک چوہدری نے حکم نامے میں لکھا تھا کہ ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو روایتی اسکولوں کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔
مسلمان اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا تھا کہ الیکشن کے قریب آتے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نے اسلام مخالف نفرت انگیز تقریریں شروع کر دی ہیں۔