رمضان المبارک کے آداب اور فضیلت جانئے –

ارشاد ربانی : "یہ جھوٹ، غیبت، گالم گلوچ، اور اسی قسم کی بُری باتوں کے خلاف ڈھال ہے، روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میں خود ہی دیتا ہوں”.

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ‘اے ایمان والو! روزے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تم پر بھی فرض کر دیئے گئے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لئے سرا سر ہدایت ہے اور اس میں لوگوں کی صحیح رہنمائی کی باتیں ہیں اور غلط اور صحیح کو الگ الگ کر دینے والی صاف اور واضح باتیں موجود ہیں، سو تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں موجود ہو وہ اس پورے مہینے کے روزے ضرور رکھے۔’

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ‘اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہو رہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے۔

جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے کوئی غیر فرض عبادت افطار کرائے تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا، تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اس شخص کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس ک

ے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا۔ اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے تین عشرے ہوتے ہیں۔ اس کا پہلا عشرہ سرا سر رحمت کا ہے، درمیانہ عشرہ نزول بخشش کا ہے اور آخری عشرہ تو عذاب سے خلاصی کی دستاویز ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضور سید اولین و آخرین رسول برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے حالتِ ایمان میں اور کیفیتِ احتساب میں، اس کے لئے اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو شخص رمضان میں عبادات میں مصروف رہے گا حالتِ ایمان میں اور کیفیتِ احتساب کے ساتھ اس کی پچھلی کوتاہیاں معاف کر دی جائیں گی اور جس شخص نے حالتِ ایمان اور کیفیتِ احتساب کے ساتھ شبِ قدر میں عبادات کیں اس کی گزری کوتاہیاں بخش دی جائیں گی۔

روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میں خود ہی دیتا ہوں۔’ یعنی یہ اللہ اور اس کے بندے کا براہ راست معاملہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں تمام دن کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رُکا رہتا ہے اور اس کے ان آداب کی پوری پابندی کا خیال و احساس رکھتا ہے اور ان پابندیوں کے مطابق اپنے دن رات کو گزارنے کی کاوشیں کرتا ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کا اجر خود ہی عطا فرماتا ہے۔

ایک اور حدیث مبارک میں ارشاد فرمایا: ‘روزہ آدمی کے لئے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اسے پھاڑ نہ ڈالے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے