حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ – تحریر نمبر 1912

ان کے اسلام لانے سے دین کو خوب تقویت و مضبوطی ملی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عن

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی اور کارنامے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو حفص تھی۔ نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل ہی وہ ایک معزز، پڑھے لکھے، بہادر، دلیر اور معاملہ فہم شخص کے طور پر معروف تھے۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

حق و باطل میں بہترین انداز میں تمیز کرنے والے تھے، اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں "فاروق” کا لقب عطا کیا۔ ان کے اسلام لانے سے دین اسلام کو بڑی تقویت ملی۔ پہلے مسلمان جو چھپ کر نماز پڑھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے بعد مسجد الحرام میں اعلانیہ نماز پڑھنے لگے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میرے علم کے مطابق ہر ایک نے چھپ کر ہجرت کی، صرف عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے ہیں جنہوں نے علی الاعلان ہجرت کی۔ انہوں نے باقاعدہ کفار کو للکارا کہ کوئی انہیں ہجرت سے روک سکتا ہے تو روک لے، لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لڑنا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا۔ کفار ان سے خوف کھاتے تھے اور انہیں اللہ کا خوف رہتا۔ کثرت سے رونے کی وجہ سے چہرے پر دو سیاہ لکیریں سی بن گئی تھیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک زمانے تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے کچھ نہ لیا۔ ان پر تنگی اور فقر و فاقہ کی نوبت آگئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کو بلا کر مشورہ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: "آپ دوپہر اور رات کا دو وقت کا کھانا لے لیا کریں۔” چنانچہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر عمل کیا۔

زمانہ خلافت میں ایسا اونی جبہ پہنتے تھے جس میں چمڑے کے پیوند لگے ہوتے تھے۔ گرمیوں میں ایک ہی جوڑا پہنتے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ زمانہ خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا۔ انہوں نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان اوپر نیچے تین پیوند لگا رکھے تھے۔ آپ چاہتے تو بیت المال سے بہت کچھ لے کر اپنی ذات پر خرچ کرتے، لیکن ان کی انکساری و خاکساری کی وجہ سے امیر المومنین ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزاری۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ خلیفہ تھے جن کی حکومت 22 لاکھ مربع میل (تقریباً آدھی دنیا) پر محیط تھی۔ ان کے دور حکومت میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت، خوزستان، آذربائیجان، تبرستان، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران، خراسان، مصر اور سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کر کے ان پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا۔

اتنے عظیم خلیفہ کا نہ کوئی پروٹوکول تھا اور نہ حاکموں جیسے ناز و نخرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میری خلافت میں ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ ہو گی۔ اپنی رعایا کا خیال رکھنے کے لئے راتوں کو بھیس بدل کر گشت کرتے تاکہ لوگوں کی پریشانیوں کا علم ہو سکے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔” (مسند احمد)

ذوالحج کے آخری دنوں میں ایک فارسی غلام ابو لولو نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دوران نماز حملہ کیا۔ چند دن زخمی رہ کر جس ہجری کلینڈر کا آغاز کیا، اسی کی یکم تاریخ کو شہید ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لحد مبارک کے برابر میں دفن ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے