قوم کی ماں –

فاطمہ جناح

"امی! اردو کی ٹیچر نے مجھے ‘فاطمہ جناح’ پر مضمون لکھنے کے لیے کہا ہے۔ آپ میری مدد کر سکتی ہیں؟” ماہ پارہ نے اسکول سے گھر پہنچتے ہی اپنی والدہ سے کہا۔

"بیٹی، بہتر ہوگا کہ تم اپنے ابو کے ساتھ لائبریری چلی جاؤ، وہاں بہت سی کتابیں ملیں گی جن سے تمہیں معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔” امی نے مشورہ دیا۔

اسی دن ماہ پارہ اپنے ابو کے ساتھ گھر کے قریب لائبریری چلی گئی۔ ابو اسے چھوڑ کر کسی کام سے چلے گئے۔ ماہ پارہ نے تھوڑی دیر تلاش کے بعد دو کتابیں حاصل کرلیں اور ایک کونے میں بیٹھ کر معلومات اکٹھا کرنے لگی۔ لکھتے لکھتے کافی وقت گزر گیا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک باوقار، خوبصورت اور دبلی پتلی خاتون اس کے سامنے کھڑی ہیں۔ انہوں نے غرارہ پہنا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔

ان کے چہرے پر نور تھا اور آس پاس ایک سفید روشنی محسوس ہو رہی تھی۔ ماہ پارہ حیرت زدہ ہو کر سحر زدہ خاتون کو دیکھتی رہی۔ لائبریری میں کوئی نہیں تھا۔ خاتون شاہانہ انداز میں چلتی ہوئی آگے بڑھیں اور ماہ پارہ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

"آپ کی صورت محترمہ فاطمہ جناح سے بہت ملتی ہے۔” ماہ پارہ نے کہا۔

"میں فاطمہ جناح ہی ہوں! محمد علی جناح کی لاڈلی بہن۔” خاتون نے دلکش آواز میں کہا، جس میں کوئی جادو تھا جو ماہ پارہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

"آپ․․․․محترمہ فاطمہ جناح ہیں؟” ماہ پارہ نے بے یقینی سے پوچھا تو انہوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ ماہ پارہ نے انہیں حیرت سے دیکھا۔

"آج میں تمہیں اپنی کہانی سناتی ہوں۔ میں 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئی۔ ہم سات بہن بھائی تھے، ایک بھائی کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا، ورنہ آٹھ ہوتے۔ میں اپنے بڑے بھائی محمد علی کے سب سے زیادہ قریب تھی۔ جب میں دو سال کی تھی تو میری امی کا انتقال ہو گیا اور آٹھ سال کی عمر میں میرے ابو بھی وفات پا گئے۔” فاطمہ جناح نے اپنی کہانی شروع کی۔

"اوہ، پھر آپ کس کے پاس رہیں؟” ماہ پارہ نے سوال کیا۔

"پھر مجھے بھائی محمد علی نے اپنے پاس بمبئی بلوا لیا اور باندرہ کے کانونٹ اسکول میں داخل کروا دیا۔ میں اسی اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رہنے لگی۔ 1913ء میں، میں نے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا اور پھر 1919ء میں ‘ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج’ کلکتہ سے دانتوں کی ڈاکٹر بن کر بمبئی واپس آگئی۔” محترمہ فاطمہ جناح نے بتایا۔

"واہ! آپ ڈینٹسٹ تھیں؟” ماہ پارہ نے متاثر ہو کر پوچھا۔

"جی ہاں! 1923ء میں، میں نے بمبئی میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا جو چھ سے سات سال تک چلتا رہا، پھر جب میری بھابی رتن بائی کا انتقال ہوا تو میں نے اپنا کلینک بند کر دیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے بھائی کے گھر میں رہنے لگی، تاکہ ان کا خیال رکھ سکوں۔ اس لیے میں نے شادی نہیں کی۔ اپنی پوری زندگی میں نے اپنے بھائی کی مدد اور خدمت میں گزار دی۔” محترمہ فاطمہ جناح نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"واقعی؟ آپ اپنے بھائی سے اتنی محبت کرتی تھیں؟” ماہ پارہ نے معصومیت سے پوچھا۔

"بالکل! اور صرف میں ہی نہیں، میرے بھائی بھی مجھ سے شدید محبت کرتے تھے۔ وہ میرے بارے میں کہتے تھے، ‘میں جب بھی گھر واپس جاتا تھا، میری بہن مجھے امید اور روشنی کی ایک کرن کی طرح لگتی تھی۔ میری پریشانیاں بڑھ جاتیں اور میری صحت خراب ہو جاتی اگر وہ میرا خیال نہ رکھتیں۔'” ان کی آواز میں محبت تھی۔

"میرے بھائی نے تو کبھی میری تعریف نہیں کی۔” ماہ پارہ نے بے دھیانی میں کہا، جس پر فاطمہ جناح مسکرائیں۔

"میرے بھائی نے علامہ اقبال سمیت بہت سے رہنماؤں کے خوابوں کو سچ کرنے کی ٹھانی اور الگ ملک حاصل کرنے کے لیے آزادی کی تحریک چلائی، جس میں میں نے بھرپور ساتھ دیا۔ خاص طور پر مسلم خواتین کو جمع کیا اور انہیں بھی اس کام میں شامل کیا۔” محترمہ فاطمہ جناح نے بتایا۔ "میں نے خواتین کے لیے ‘ویمنز ریلیف کمیٹی’ بنائی جو بعد میں ‘آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن’ کی بنیاد بنی۔ 1947ء میں جب لوگ ہندوستان سے پاکستان آئے، تو میں نے مسلمان خواتین کی بہترین طریقے سے سربراہی کی۔”

"آپ قائداعظم کی اتنی مدد کرتی تھیں اسی لیے وہ کامیاب ہو گئے۔” ماہ پارہ نے کہا۔

"بے شک! میں ہر موقع پر اپنے بھائی کے ساتھ رہی۔ میرے بھائی خود عظیم انسان تھے، میں ان کے شانہ بشانہ پاکستان حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ایک موقع پر بھائی نے میرے بارے میں کہا تھا، ‘مس فاطمہ جناح میرے لیے مدد اور حوصلہ افزائی کا ایک مستقل ذریعہ ہیں۔ ہر مشکل گھڑی میں انہوں نے مجھے ہمت اور امید دلائی اور ہمیشہ میری صحت کی فکر کی۔'”

محترمہ فاطمہ جناح نے مزید بتایا، "میں نے ملک و قوم کے لیے قربانیاں دیں اور پاکستان بننے کے بعد بھی ملک اور ملت کی بہتری کے لیے کام کرتی رہی، اس لیے قوم نے مجھے ‘مادر ملت’ کا لقب دیا۔”

"مادر ملت کا مطلب کیا ہے؟” ماہ پارہ نے سوال کیا۔

"اس کا مطلب ہے قوم کی ماں۔ ایک ماں ہی بڑی بڑی قربانیاں دے سکتی ہے اور اپنی زندگی کے بجائے اپنے بچوں کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہے۔ ضعیف ہو کر بھی میں نے سماجی اور تعلیمی اداروں کی مدد کرنا جاری رکھا اور اپنے بھائی کی وفات کے بعد ان کے مقصد کو لے کر چلتی رہی۔” محترمہ فاطمہ جناح نے دھیمے لہجے میں کہا۔

"میں بھی آپ کی طرح بننا چاہتی ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟” ماہ پارہ نے عزم کے ساتھ پوچھا۔

"اپنے فرائض خلوص سے ادا کرو، جب تک ہر شخص اپنا فرض ادا کرنے کا عزم نہ کر لے، قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچو، مگر جب کوئی فیصلہ کر لو تو اس پر مضبوطی سے ڈٹے رہو۔” محترمہ فاطمہ جناح نے نصیحت کی۔

اچانک کسی نے ماہ پارہ کو جھنجھوڑا، "اٹھو، اٹھو، کیا نام ہے تمہارا؟” ماہ پارہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور اٹھانے والے کو دیکھا، وہ لائبریری کی انچارج تھیں، جو اسے جگانے آئی تھیں۔

"کیا میں سو گئی تھی؟” ماہ پارہ نے اپنے آپ سے کہا، پھر چاروں طرف نظر دوڑائی، مگر وہ جادوئی خاتون کہیں نظر نہیں آئیں۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ سب خواب تھا۔ ماہ پارہ نے گھر آکر مضمون لکھا اور اپنے ابو کو دکھایا۔ ابو نے مضمون پڑھا اور بہت خوش ہوئے۔

"تم نے بہت اچھا مضمون لکھا ہے، بس تھوڑا سا اضافہ کر لو۔ محترمہ فاطمہ جناح نے 9 جولائی 1967ء کو 72 سال کی عمر میں وفات پائی۔ مزار قائد میں بہت اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین کی گئی۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے