اسرائیل کی جانب سے غزہ میں قتل عام اور اسکولوں کی تباہی سے اب تعلیمی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، غزہ میں 100 روز سے جاری اسرائیلی حملوں میں جہاں رہائشی عمارتیں تباہ ہوئیں، وہاں اسکولز اور کلاس رومز بھی مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ اس حملے میں متعدد ٹیچرز جان سے گئے اور متعدد بے گھر ہوئے ہیں۔
رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسکولوں کی تباہی اور ٹیچرز کا قتل غزہ میں تعلیم کے قتل کے طور پر بھی سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔
تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر جاری رپورٹ میں، عالمی امدادی اداروں نے فلسطین کے نوجوانوں کے لیے اسے ایک طویل تباہی قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں طالب علم تعلیم کے میدان میں اس تشویشناک صورتحال سے دوچار ہیں، جہاں انہیں اسکولوں تک محفوظ رسائی نہیں ہے، جو اس جنگ کا سب سے بڑا زخم ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی حملوں سے قبل غزہ کی پٹی پر 2.2 ملین آبادی تھی، جس میں سے آدھے اسکول جانے والے بچے تھے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد تقریباً 4 ماہ میں وہاں 1200 افراد مارے گئے، جب کہ غزہ میں اسرائیلی بربریت سے 25 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
عالمی امدادی اداروں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جو بچے زندہ بچ گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں، جب کہ فلسطینی نوجوانوں کی جبری بے دخلی اور بنیادی سہولیات کی قلت تشدد کو بڑھا رہی ہے۔
یونیسیف رپورٹ کے مطابق 8 جنوری 2024 تک اس جنگ نے 4 لاکھ 33 ہزار طلبہ اور 16 ہزار اساتذہ کو متاثر کیا، اس دوران 4275 طلبہ شہید ہوئے ہیں، جن کی عمریں 6 سے 17 سال کے درمیان تھیں، جب کہ 227 اساتذہ بھی مارے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں کم از کم 90 فیصد اسکول بے گھر فلسطینیوں سے بھرے ہوئے ہیں، جن میں ان کی گنجائش سے 4 گنا زیادہ لوگ