اسلام آباد ہائیکورٹ نے جلسہ کرنے کے حق کی تصدیق کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرلی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی کو عدالتی حکم کے باوجود جلسے کی اجازت نہ دینے پر چیف کمشنر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیے، جبکہ وزارت داخلہ کا نمائندہ بھی عدالت میں پیش ہوا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ محرم چل رہا ہے اور محرم کے بعد جلسے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محرم کے جلوس اور تقاریب چہلم تک جاری رہتی ہیں اور اس حوالے سے تمام تفصیلات عدالت میں جمع کرادی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت سے استفسار کیا کہ کیا فیض آباد میں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ بغیر اجازت بیٹھے ہیں؟ ان کو کوئی نہیں روک رہا۔ اس پر جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا کہ کیا فیض آباد میں دھرنا جاری ہے؟ شعیب شاہین نے جواب دیا کہ جی، تین روز سے دھرنا چل رہا ہے اور صرف پی ٹی آئی کو جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف نائن پارک میں پی ٹی آئی نے سیکڑوں جلسے کیے ہیں اور آج تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کے بعد ان پر دہشتگردی کی دفعات سمیت سات مقدمے درج ہوئے ہیں اور چیف کمشنر سے ملاقات پر انہوں نے کہا کہ جلسہ نہیں ہوسکتا۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا آئینی حق ہے اور انہوں نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرلی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن و امان کے قانون کے تحت لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق برباد کیے جا رہے ہیں۔
عدالت نے نمائندہ وزارت داخلہ سے سوال کیا کہ وزارت داخلہ جلسے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ نمائندہ وزارت داخلہ نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ بھی محرم کے چالیسویں کے بعد جلسے کی اجازت دینے کے حق میں ہے۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ابھی محرم کا ذکر کیا جا رہا ہے، باقی سب کو معلوم ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کس کے کہنے پر کر رہا ہے۔
عدالت نے دونوں فریقین کو بیٹھ کر معاملے کا حل نکالنے کی ہدایت کی اور مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔