بلوچستان میں دہشتگردی: شاہراہوں پر حفاظتی اقدامات پر سوالات اُٹھنے لگے۔

بلوچستان

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات نے فضا کو سوگوار کر دیا ہے۔ دوسری جانب، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے بارے میں روایتی بلند و بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں۔

ان واقعات نے بلوچستان میں حکومتی کارکردگی، خاص طور پر شاہراہوں پر کیے گئے حفاظتی اقدامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب موسیٰ خیل، قلات، بولان، اور لسبیلہ سمیت مختلف اضلاع میں ہونے والے حملوں میں 55 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں سے زیادہ تر واقعات قومی شاہراہوں پر پیش آئے۔

حکومتی دعوے اپنی جگہ، لیکن ان علاقوں میں حملوں کے رونما ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد عناصر کو معصوم اور نہتے افراد کے قتل عام کی جیسے کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ خاص طور پر موسیٰ خیل کا سانحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کی ہائی ویز حکومت کے دعوؤں کے برعکس کتنی غیر محفوظ ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا بیان:

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ صوبے کی 4000 کلومیٹر لمبی سڑکوں میں سے دہشت گرد کسی ایک جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ ہماری سوسائٹی کے اندر رہ کر ریکی کرتے ہیں، پھر موقع دیکھ کر آدھے گھنٹے کے لیے آتے ہیں اور 100 میٹر کے فاصلے پر بس سے اتار کر لوگوں کو مارتے ہیں اور پھر فرار ہو جاتے ہیں۔

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا بیان:

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ وفاقی حکومت وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم ان کے ہر فیصلے کی حمایت کریں گے اور ان کو ہر ممکن سپورٹ فراہم کریں گے۔

یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی رواں ماہ مستونگ کے علاقے میں مسلح افراد نے ڈپٹی کمشنر پنجگور، ذاکر علی، کو شہید کر دیا تھا، اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

سکیورٹی ماہرین کے مطابق، ان واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ مستقبل میں ٹھوس حکمت عملی اور مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ قومی شاہراہوں پر سفر کو محفوظ بنایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے