کراچی: پاکستان کے پاور سیکٹر کو آئی پی پیز کے بعد اب کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کی بندش سے مسائل کا سامنا ہے۔
ملک میں آر ایل این جی کی کھپت میں بڑی کمی اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر گیس پر مبنی کیپٹو پاور پلانٹس کو قومی گرڈ میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں سوئی گیس کمپنیوں کو 420 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔ وزارت توانائی کے سینئر ذرائع کے مطابق، کیپٹو پاور پلانٹس سے سالانہ 420 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوتا ہے، اور اس وقت انڈسٹری 100 ارب روپے کی کراس سبسڈی فراہم کر رہی ہے جو گیس کے محفوظ صارفین تک پہنچائی جا رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملک بھر میں کیپٹو پاور پلانٹس کی تعداد 1180 ہے، جن میں سے 797 سوئی سدرن اور 383 سوئی ناردرن کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ یہ پلانٹس بلک گیس صارفین ہیں، اور اگر وہ سسٹم سے باہر ہو جاتے ہیں تو نئے گیس صارفین کو تلاش کرنا پڑے گا جو 300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کرتے ہیں، جس سے 420 ارب روپے کا نقصان ہوگا۔
وزارت توانائی کے ذرائع نے کہا کہ سی پی پیز کی جگہ پروڈکٹ بیچنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ گیس کی کھپت میں کمی واقع ہو رہی ہے، جو لائن پیک پریشر میں اضافے سے ظاہر ہوتی ہے۔ لائن پیک پریشر کئی بار مین پائپ لائن میں 5 بی سی ایف سے زیادہ ہو جاتا ہے، جس سے قومی گیس کی ترسیل کا نظام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ سی پی پیز کی گیس سپلائی منقطع ہونے کی صورت میں محفوظ گیس صارفین کے لیے 100 ارب روپے کی سبسڈی جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ کیپٹو پاور پلانٹس کے گیس ٹیرف کو آر ایل این جی کے برابر کیا جائے۔