اسلام آباد: آئینی ترامیم کے معاملے میں حکومت کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے حکومتی قانونی ٹیم کو ناکامی اور نااہلی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزراء اب میڈیا پر آئینی ترمیم کی اہمیت پر وضاحتیں پیش کر رہے ہیں، جبکہ وہ کچھ دن پہلے تک اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ حکومت عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پر کام کر رہی ہے۔
وزراء اب آئینی ترمیمی پیکیج کے فوائد بیان کر رہے ہیں، حالانکہ پہلے یہ ترمیم خفیہ رکھنے کی حکمت عملی نے معاملے کو مشکوک اور متنازع بنا دیا تھا۔ جب آئینی ترمیم کے معاملے پر اعتماد سازی اور اتفاقِ رائے کی ضرورت تھی، حکومتی قانونی ٹیم نے اس پر غلط بیانی کی۔ ناکامی اور سبکی کے بعد حکومت نے میڈیا کے سامنے معاملات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اب شاید وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
آئینی ترمیم کا ڈرافٹ اب بھی معمہ بنا ہوا ہے؛ کچھ لوگ میڈیا پر چلنے والے مسودے کو اصل قرار دے رہے ہیں، جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ وہ درست نہیں ہے۔ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن نے اس ڈرافٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کا مسودہ مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے، اور اس پر سوال اٹھایا کہ کیا پہلے فراہم کیا گیا مسودہ محض ایک کھیل تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ قابلِ قبول نہیں تھا اور اس کا ساتھ دینا قوم کے ساتھ بڑی خیانت ہوتی۔
مولانا کے انکار کے بعد آئینی ترمیمی پیکیج کی منظوری کا معاملہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک موخر کر دیا گیا ہے، کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کی واپسی کے بعد حکومت اس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کی دوبارہ کوشش کرے گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آئینی عدالت اور سپریم کورٹ الگ الگ کام کرتی ہیں، اور بلاول بھٹو نے بھی میڈیا پر کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والا ڈرافٹ اصل نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف اپنے اپنے ڈرافٹ تیار کر رہی ہیں، اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک متفقہ ڈرافٹ پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں مجوزہ ڈرافٹ سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ معاملہ صرف مشاورت کی حد تک تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اتوار کو حکومت نے کابینہ، قومی اسمبلی، اور سینیٹ کے اجلاس بلائے تھے تاکہ آئینی ترمیمی پیکیج کو جلد از جلد منظور کروایا جا سکے۔
حکومتی ٹیم کی جلد بازی اور انتظامی ناکامی نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور اختر مینگل نے کہا کہ اگر آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ چاہیے تو مکمل ڈرافٹ شیئر کیا جائے اور سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ تاہم، حکومت کے عزائم کچھ اور ہی نظر آتے ہیں۔ موجودہ ڈرافٹ میں کیا شامل ہے، اور کون سا ڈرافٹ درست ہے، یہ سوالات ابھی بھی موجود ہیں۔
حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات کی منتقلی کے لیے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ ایک مخصوص وقت پر وفاقی آئینی عدالت بنانے کی اچانک ضرورت کیوں پیش آئی؟
حکومت کے پہلے امتحان میں ناکامی کے بعد، آئینی ترامیم کی دوسری کوشش وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے بعد کی جائے گی۔ اس دوران، عدلیہ کی جانب سے دائر کردہ آئینی درخواست پر بھی توجہ دی جا رہی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم غیرآئینی ہے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ یہ درخواست جلد سماعت کے لیے مقرر کی جا سکتی ہے، جس سے معلوم ہوگا کہ عدلیہ اس معاملے کو کس طرح دیکھتی ہے۔