حکیم محمد سعید اور قائداعظم – 

قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں شہید حکیم محمد سعید نے ایک جگہ لکھا تھا:”جہاں قائداعظم کی شخصیت کا تعلق ہے، سب سے زیادہ ان کے اس پہلو نے متاثر کیا کہ آدمی صحیح فیصلہ کرے، اور اس پر ڈٹ جائے

حکیم محمد سعید

انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے، اسے اپنے لیے مثالی نمونہ بنا لیتا ہے۔ جو شخص اپنے مثالی نمونے کی پیروی کرتا ہے، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ قائداعظم محمد علی جناح ایک بااُصول اور دیانت دار شخصیت تھے، اور ان کی پوری زندگی نوجوانوں کے لیے ایک قابلِ فخر مثال ہے۔ وکالت کے دوران، قائداعظم نے کبھی کسی جھوٹے، فرضی، من گھڑت، اور بے بنیاد مقدمے کی پیروی نہیں کی۔ اگر انہیں کسی مقدمے کے جھوٹا ہونے کا علم ہوتا، تو وہ صاف انکار کر دیتے، چاہے اس میں بھاری رقم کا لالچ بھی شامل ہو۔

قائداعظم محمد علی جناح اپنے پیشے میں بااُصول، دیانت دار، اور وقت کے پابند تھے۔ شہید حکیم محمد سعید نے ان کی شخصیت کے بارے میں لکھا کہ قائداعظم صحیح فیصلہ کرتے تھے اور اس پر ڈٹ جاتے تھے۔ ان کا یہ فیصلہ بھی بالکل صحیح ہوتا تھا اور اس پر عمل کرنے کے لیے وقت بھی پوری طرح استعمال کرتے تھے۔ حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی میں قائداعظم کے اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں اس میں کامیابی بخشی۔

شہید حکیم محمد سعید کی زندگی کامیابیوں سے بھری ہوئی تھی، اور انہیں یہ کامیابیاں قائداعظم کی زندگی کو مثالی نمونہ بنا کر ملیں۔ حکیم محمد سعید بھی وقت کے بہت پابند تھے۔ ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے نونہال اسمبلی کے مختلف شہروں میں انعقاد سے بچوں کو وقت کا پابند کر دیا ہے۔ وقت کی قدر کرنے اور اس کا صحیح استعمال عبادت ہے، جبکہ غلط استعمال خیانت ہے۔

قائداعظم اور شہید حکیم محمد سعید کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں درست کر لیتے تھے۔ قائداعظم کام پر یقین رکھتے تھے اور نوجوانوں پر زور دیتے تھے کہ کام، کام، اور کام۔ حکیم محمد سعید نے بھی اپنی زندگی کام، کام، اور کام کرتے گزاری۔ اپنی شہادت کے دن بھی وہ مریضوں کو دیکھنے کے لیے اپنے مطب آرہے تھے۔

شہید حکیم محمد سعید نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سب اس وقت ہو سکتا ہے جب تعلیم کو عام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیمی ادارے قائم کیے اور وطن کے نونہالوں کو علم اور اخلاق کے ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے لیے "ہمدرد نونہال” جاری کیا۔

ایک تقریب میں انہوں نے "مدینتہ الحکمہ” کے بارے میں کہا کہ یہ خیر کا راستہ ہے اور اس راہ پر چلنے میں بڑے کانٹے ہوتے ہیں، لیکن مجھے زخمی ہونا آتا ہے اور میں زخمی ہو سکتا ہوں اور ہوتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ خدمت کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی خود کو بھول جائے۔ وہ سالہا سال سے اس کوشش میں مصروف تھے، اور بلاشبہ انہوں نے قائداعظم کی شخصیت سے متاثر ہو کر خود کو بھلا کر عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے